یونان کے علاقے آبدرہ میں ڈیموکریٹس نامی ایک فلاسفر نے 2400 سال پہلے مادے کا نظریہ یعنی پیش کی جو اس وقت تو افلاطون نے بھی مسترد کردیا کیونکہ ہزاروں سال سے یہ نظریہ چلا آرہا تھا، رومیوں کا بھی یہی نظریہ تھا کہ دنیا کی ہر چیز مٹی، آگ، پانی اور ہوا سے بنی ہے۔ حتی انسان بھی مٹی سے بنا ہے!!!

ڈیموکریٹس کا نظریہ 2200 سال تک حاوی رہا حالانکہ عباسی دور میں یونانیوں کے کتابوں میں ڈیموکریٹس کے نظریہ مادہ کا بھی ترجمہ ہوچکا تھا، مگر کسی نے توجہ نہیں دی!! یہی وہ نظریہ ہے جو مولوی صاحبان ایکسیویں صدی میں بھی پرچار کررہے ہیں، آج خطبہ حج میں خانہ کعبہ کے امام نے اسی نظریئے کے متعلق ذکر کیا ہے۔ اور تہران کہ یونیورسٹی کے عظیم الشان نماز جمعہ کے خطبے میں آیت اللہ كاظم صديقى کہتے ہیں کہ زلزلے اس لئے آتے ہیں کہ خواتین چست پتلون پہنتے ہیں۔۔۔ حالانکہ زلزلہ ایک قدرتی عمل ہے جو کے سرکنے کے عمل کے دوران واقع ہوتا ہے، اور جو زلزلے ہماری طرف ہوتے ہیں، اس طرح زلزلے جاپان میں تقریباً روزانہ ہوتے ہیں، اگر تنگ پتلون کی وجہ سے زلزلے ہوتے تو یورپ، امریکہ سمیت دوبئی کو تباہ ہونا چاہئے تھے
پھر جوہن ڈالٹن John Dolton نے 1800 کے ابتداء میں تجربات کے ذریعے ڈیموکریٹس کے نظریہ مادہ کی توسیع کی، اور قرار دیا کہ کہ مادہ ایٹموں سے بنا ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی مادی چیز کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جائیں تو آخر کار ایک حد آ جائے گی اور مزید تقسیم ممکن نہیں ہو گی۔، ہوا، پانی، مٹی اور آگ سے نہیں!!!
آج سکول کے بچے بھی جانتے ہیں کہ ایٹم کیا ہے! ایٹم مادے کا چھوٹا ترین ذرہ ہوتا ہے جو اپنے کیمائی خواص برقرار رکھتا ہے۔
آج الیکٹرک مائیکروسکوپ سے یہ حقیقت واضح ثابت ہوجاتی ہے۔ 1905 میں آئن اسٹائن نے بتایا کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ 1942 میں انریکو فرمی Enrico Fermi نے دنیا کا پہلا ایٹمی ری ایکٹر بنایا جسے شکاگو پائیل کا نام دیا گیا۔ جبکہ مین ہیٹن پروجیکٹ کے تحت 1945 میں ہونے والا پہلا ایٹم بم کا تجربہ ہوا جسے ٹرینیٹی ٹیسٹ کا نام دیا گیا۔ اور 1945 میں ہی 6 اور 9 اگست کو امریکہ نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے۔۔
بس یہی وہ دور تھا جب سيموميٹر Seismometer کے ذریعے ایٹمی تجربات مانیٹر ہونے لگے اور امریکہ اور روس میں ایٹمی ہتھیار بنانے کی دوڑ شروع ہوئی۔

تو سيموميٹر Seismometer کی ایجاد سے زمین کی ہلنے کا تجربہ ہوا یوں زلزلہ کیسے اور کہاں آتا ہے اس کا بھی یہیں سے پتہ چلا، اور یہ بھی کہ زمین کی تہیں Tectonic Plates (پلیٹس) کسیے ہلتے ہیں، ایسے میں 30 سال پرانے الفریڈ ویگنر کے مشاہدات اور تجربات کی بھی توسیع ہوئی اور Continental Drift نظریہ سچا ثابت ہوا۔
ساڑھے چار ارب سال پہلے سورج کے پھٹنے سے دنیا وجود میں آئی کیا زمین کی ھیئت میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟
سائنسدان اور جغرافیادان 1912 تک سب یہی سمجھتے تھے کہ دنیا جب سے وجود میں آئی ہے تو ویسی کی ویسی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی رہی!!
جرمن جیو فزسسٹ الفریڈ ویگنر Alfred Wegener نے نقشوں کے مشاہدے کے بعد یہ کانٹیننٹل ڈرفٹ کا نظریہ نظریہ پیش کیا جو اس وقت کچھ خامیوں کے ساتھ درست ثابت ہورہا ہے۔
الفریڈ کا ماننا تھا کہ دنیا کی خشکی پہلے ایک ہی حصہ تھا ایک براعظم تھا۔ الفریڈ نے افریقہ اور امریکہ براعظمو کے نقشوں کا تقابل کیا، آسٹریلیا اور تسمانیہ کا جغرافیہ دیکھا، یورپ اور امریکہ کے پہاڑی رینج دیکھے، سری لنکا دیکھا اور اس جیسے درجن بھر نقشوں کے تقابل کے بعد سمجھ گئے کہ یہ سب علاقے کسی وقت متصل تھے، جسے وہ پنجیا Pangaea کہا کرتے تھے، آہستہ آہستہ سرکتے ہوئے ایک دوسرے سےدور ہوتے گئے۔ اب یہ ایک انقلابی نظریہ تھا!! جو آج بھی حقیقت ہے، مگر الفریڈ کو یہ سمجھ نہیں تھی کہ ایسا کیوں ہورہا ہے!! ظاہر ہے، اس وقت گوگل آرتھ اور Seismometer ایجاد نہیں ہوا تھا!!!
الفریڈ تو دریاؤں سمندروں، صحراؤں، پہاڑوں اور براعظمو میں ذلیل ہ خوار ہو کر اپنے مشاہدات اور تجربات اکھٹے کررہے تھے مگر آج آپ گوگل آرتھ پر جائیں تو آپ بھی یہ مشاہدہ کر پائیں گے کہ دراصل یہ علاقے کسی وقت آپس میں جڑے ہوئے تھے۔۔۔
کیا آپ کو پتہ ہے کہ ہمالیہ کا عظیم الشان پہاڑی سلسلہ کیسے وجود میں آیا ہے؟ انڈین پلیٹ یوروایشن پلیٹ سے کب ٹکرایا جس سے کوہ ہمالیہ وجود میں آئے؟
کیا آپ کو پتہ ہے کہ ایک اور ہمالیہ وجود میں آنیوالا ہے؟
افریقہ اور یورپ کے درمیان فاصلہ سمٹ رہا ہے!! بحریہ روم ختم ہونے جارہا ہے، ہر سال ایک انچ کی رفتار سے یورپ اقر افریقہ کے درمیان فاصلہ کم ہوتا جارہا ہے، دریائے روم ختم ہوتا جارہا ہے اور آج سے کئی کروڑ سال بعد افریقہ اور یورپ ایک براعظم ہونگے، اور وہاں Tectonic Plates کے ٹکراؤ سے کوہ ہمالیہ کی طرح عظیم الشان پہاڑی سلسلہ بن جائے گا۔۔۔
آج جیومیٹکس Geomatics کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں کہ زمین کیسے سرکتی ہے، جیوگرافک انفارمیشن سسٹم GPS یعنی Global Positioning System کے ذریعے بغیر ڈررائیور کے یعنی خودکار گاڑیاں سڑکوں پر گھوم رہی ہیں۔ گوگل میپس لوکیشن کے ذریعے پیزا ڈیلویری گھر گھر پہنچنا ممکن ہوا ہے، اور دنیا جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ ہمارا اس میں کیا کنٹری بیوشن ہے؟
ہمارے یونیورسٹیز میں مولانا طارق جمیل صاحب اور حماد صافی وغیرہ کا تو فقید المثال استقبال ہوتا ہے، کیا ہمارے یونیورسٹیاں ایجادات بھی کررہی ہیں؟ دنیا کے صف اول ایک ہزار یونیورسٹیوں کے ساتھ ہمارا کیا مقابلہ ہے؟؟
وقت نہیں آیا ہے کہ ہم ڈھائی ہزار سال قدیم نظریات کو ترک کرکے نئے زمانے کے ساتھ شانہ بشانہ چلیں؟
#احمدطوری